یہیں پہ تھا میرا بچپن یہیں کہیں پر تھا
یہیں ہنسا تھا
یہیں پر کہیں پہ رویا تھا
یہیں درختوں کے ساۓ میں
تھک کے سویا تھا
تھے رَتجگے میری انکھوں میں، یار بیلی تھے
یہیں عشق کے موسم دھمال ڈالتے تھے
یہیں پہ کھیل تھے میرے یہیں گھروندے تھے
یہیں پہ چوڑیوں سے نام کاڑھ لیتے تھے
یہیں پہ تتلیوں سے رنگ چھین لیتے تھے
یہیں پہ جگنوؤں سے اپنی بات چلتی تھی
یہیں پہ تھا وہ لڑکپن ، یہیں کہیں پر تھا
یہیں پہ ماں مجھے سینے لگاۓ رکھتی تھی
یہیں پہ پاپا نے اِک بار کان کھینچے تھا
یہیں بنایا تھا اُستاد نے مجھے مُرغا
شرارت اور نے کی تھی سزا مجھے تھی ملی
میں کتنی دیر کھڑا دھوپ میں رہا تنہا
تمام یار مرے خوش مری سزا پر تھے
مِرا وجود تھے کمبخت، کتنے پاجی تھے
یہیں پہ تھاوہ لڑکپن یہیں کہیں پر تھا
یہیں کہیں پہ تو ریخیں اُبھر رہی تھیں مری
انہی جھروکوں سے کچھ چاند جھانکتے تھے مجھے
یہیں کہیں پہ وصیؔ خواب
دیکھنا سیکھا
اور اپنے لوگوں کے بارے میں سوچنا سیکھا
میں جو بھی کچھ ہوں یہیں ہوں
اِسی جگہ سے ہوں
یہیں پہ تھا میرا بچپن یہیں کہیں پر تھا
۔ وصی شاہ