تب تلک ہیں میری زیست میں غم باقی
جب تلک ہیں
زلفِ یار میں خم باقی
عالم نازع ہے اُن سے کہو کہ مسکرا دیں
مُریدِ عشق کے کچھ ہی تو ہیں دام باقی
میرے محسن مجھے میری قبر تلک تو چھوڑ آؤ
بس تھوڑی زحمت اورہیں دو، چار قدم باقی
دل کے زخم تو تم دیکھ چکے آپنی انکھوں سے
روح پربھی ہیں تیغِ نظر کے زخم باقی
گناہ کرتارہا تجھے میں رحیم جان کر
معاف کر دو کہ رہ جاۓ میرا بھرم باقی
میت پہ میری آ کر وہ عجب شان سےبولے
اُٹھو ، اُٹھو کہ کچھ اور ہیں ابھی ستم باقی