Monday, 2 September 2013

Abhi Sitam Baqi

تب تلک ہیں میری زیست میں غم باقی
جب تلک ہیں  زلفِ یار  میں  خم باقی

عالم نازع ہے اُن سے کہو کہ مسکرا دیں
مُریدِ عشق کے کچھ ہی تو ہیں دام باقی

میرے محسن مجھے میری قبر تلک تو چھوڑ آؤ
بس تھوڑی زحمت اورہیں دو، چار قدم باقی


دل کے زخم تو تم دیکھ چکے آپنی انکھوں سے
روح پربھی ہیں تیغِ نظر کے زخم باقی

گناہ کرتارہا تجھے میں رحیم جان کر
معاف کر دو کہ رہ جاۓ میرا بھرم باقی

میت پہ میری آ کر وہ عجب شان سےبولے
اُٹھو ، اُٹھو کہ کچھ اور ہیں ابھی ستم باقی