Tuesday, 10 September 2013

Shab Dhaly by Mohsin Naqvi

شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی

وہ قیامت ہو کہ ستارہ ہو کہ دل ہو
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی

دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

اُس کی نفرت میں بھی محبت ہوگی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی

اس کے قدموں میں بچھادوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کوئی دیکھے تو سہی

اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے وہ بولے تو سہی


محسن نقوی