ابھی سے کیوں پریشان ہوتے ہو
تمہاراکچھ
نہیں بگڑا
تمہاری
والدہ ہیں محترم اب بھی
انہوں نے
آج تک تھانہ نہیں دیکھا
جواں
بیٹوں کی خاطر کسی سفاک تھانیدار کے پاؤں نہیں پکڑے
تمہاری
بہن کو ا ب تک کوئی کاری نہیں کہتا
شریک ِ
زندگی کے کھلتے چہرے پر
کسی ظالم نے کب تزاب پھینکا ہے
کسی ظالم نے کب تزاب پھینکا ہے
نہ تمہاری
دختر نیک اختر نے
کوئی
اِجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے
ابھی سوتے
رہو بھائی،
ابھی سے کیوں پریشان ہوتے ہو؟
تمہارا
کچھ نہیں بگڑا
بتاؤ کیا
کبھی لختِ جگر اغوا ہوا کوئی
یا
کبھی تم سے کسی نے تاوان ما نگا ہے
دھماکے
ہوتے رہتے ہیں مگر آج تک اب تک
تمہارا
بھائی مسجد سے بخیرو عافیت گھر پہنچتا ہے
بھتیجا اب
بھی گلیوں میں کرکٹ کھیلا کرتا ہے
ابھی تک
تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا
نہ اُس کی
لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے
ابھی سوتے
رہو بھائی،
ابھی سے کیوں پریشان ہو؟
تمہارا
کچھ نہیں بگڑا
ابھی اس
ظلم کے عفریت میں، تم میں ذرا سا فاصلہ ہے
ابھی تم
تک پہنچنے میں ذارا سا وقت باقی ہے
ابھی سوتے
رہو، ابھی کچھ دیر باقی ہے
شکیل
جعفری